بھوکا لڑکا
![]() |
بھوکا لڑکا |
لاہور کی پرانی گلیوں میں، جہاں نان کے
تنور کی خوشبو ہوا میں رچ بس چکی تھی اور ریڑھی والوں کی آوازیں دن بھر گونجتی تھیں،
ایک بارہ سالہ لڑکا عمران رہتا تھا۔ دبلا پتلا، بکھرے بال، آنکھوں میں چمک لیے، وہ
ہر دن بھوک کے سائے میں جیتا تھا۔ اس کے پاس کوئی خاندان نہ تھا، بس ایک پکا دوست
— بلال۔
بلال، جو اس سے ایک سال بڑا تھا، بھی اسی
کی طرح سڑکوں پر پلنے والا بچہ تھا۔ ان کی پہلی ملاقات داتا دربار کے پاس ہوئی تھی،
جہاں دونوں کبھی جوتے پالش کرتے، کبھی لوگوں کی چیزیں اٹھا کر پیسے کماتے۔ تھوڑے ہی
دنوں میں وہ بھائی بن گئے۔ رشتہ خون کا نہ تھا، لیکن بھوک، غربت اور خوابوں نے انہیں
جوڑ دیا تھا۔
ایک دن کا قصہ
ایک گرم دوپہر، عمران اور بلال لاہور اسٹیشن
کے پاس جوتے پالش کر کے تھک چکے تھے۔ جیب میں صرف چند سکے تھے—بمشکل ایک چائے اور آدھی
روٹی کا خرچ۔ وہ ایک برگد کے درخت کے نیچے بیٹھے تھے، جہاں اکثر سائے میں ریڑھی والے
بھی آرام کرتے تھے۔
“بلال، سوچ! ایک دن اپنا کھانے کا سٹال ہو
گا نا؟” عمران نے کہا، چمکتی آنکھوں کے ساتھ۔
“کیا بنائیں گے؟” بلال نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
“بن کباب! ایسا زبردست، کہ بادشاہ بھی کھانے
آئے!” عمران نے آنکھیں بند کر کے تصور کیا۔
اسی لمحے، ایک صاف ستھرا آدمی، سفید شلوار
قمیض میں، ان کے قریب آیا۔ اس کے ہاتھ میں بریانی کا ڈبہ اور دو ٹھنڈی بوتلیں تھیں۔
“تم دونوں بھوکے لگ رہے ہو۔ لو یہ کھاؤ۔
فکر نہ کرو، یہ کسی شرط کے بغیر ہے۔” وہ مسکرایا۔
عمران اور بلال نے حیرت سے ایک دوسرے کو
دیکھا۔ ایسا کبھی کسی نے نہیں کیا تھا۔
“میں بھی کبھی تم جیسا ہی تھا،” اُس آدمی
نے کہا، اور بغیر مزید کچھ کہے چلا گیا۔
خواب کا آغاز
اس دن عمران کو صرف کھانا نہیں ملا، بلکہ
ایک امید ملی۔ پہلی بار اسے لگا کہ شاید وہ واقعی اپنی زندگی بدل سکتا ہے۔
وقت گزرتا گیا۔ دونوں دوستوں نے دن رات
محنت کی۔ کبھی ہوٹل میں برتن دھوئے، کبھی ریڑھی لگائی، کبھی کچرا چنا۔ لاہور کی گرمی،
بارشیں، سردیاں — سب کچھ برداشت کیا، لیکن خواب کو نہیں چھوڑا۔
کئی سال بعد
بالآخر، ان دونوں نے انارکلی بازار کے قریب
ایک چھوٹا سا فوڈ کارٹ لگا لیا۔ سائن بورڈ پر لکھا تھا:
عمران کے بن کباب – ہر بھوکے کے لیے"**
وہ بچوں سے کبھی پیسے نہیں لیتے تھے۔ جو
بھوکا آتا، اس کے لیے کھانا ہوتا۔
کبھی کبھی، جب عمران ہنڈیا میں کباب ڈال
رہا ہوتا، یا نان گرم کر رہا ہوتا، تو وہ آسمان کی طرف دیکھتا اور آہستہ سے کہتا:
شکریہ
عمران اور بلال کی کہانی صرف بھوک کی نہیں
تھی، بلکہ حوصلے، دوستی اور قربانی کی تھی۔ لاہور کی ان گلیوں نے انہیں تو پال ہی لیا،
لیکن انہوں نے بھی ان گلیوں کے کئی بھوکے بچوں کو سہارا دیا۔